رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی
انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت
سی خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتیں ہیں، نہ صرف یہ
، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی
اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی
ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکاة
نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکاة کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان
المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکاة کے وجوب اور اس کی
ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن
چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی
ادائیگی کی جاتی ہے؛ اس لیے اس موقع پر مناسب معلوم
ہوا کہ اس ماہ میں جہاں رمضان ، روزہ اور ان سے متعلق ہر ہر عبادت پر لکھا
جاتا ہے اور خوب لکھا جاتا ہے،وہاں اسی مہینے میں ”زکاة “ پر بھی
لکھا جائے ؛ تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے
اپنے اس فریضے کو ادا کریں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی
ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں
جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے
کہ زکاة رمضان میں نکالنی ہے، بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں
اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ زکاة نکالنے
والا اپنی زکاة کی ادائیگی میں زکاة کے واجب ہونے
کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکاة نکالے ،اور اس کے لیے
رمضان کا انتظار نہ کرے؛چنانچہ ذیل میں ”زکاة کن اموال پر واجب ہوتی
ہے؟“ پر تفصیلاً اور کچھ دیگر مسائل پر اجمالاً روشنی ڈالی
جائے گی۔
زکاة کا معنی
و مفہوم:
زکاة کے لغوی معنی پاکی
کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ”مخصوص مال میں
مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “کو زکاة کہتے
ہیں۔(الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الزکوٰة: ۱/۹۹، درالکتب العلمیہ)
زکوٰة کو زکوٰة کہنے کی
وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی
طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا
ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی
و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا:
مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور
نفس و مال کی پاکی کے لیے زکوٰة و صدقات کو مقرر کیا
گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰة سے مال میں ظاہری یا
معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی
زکوٰة کا نام زکوٰة رکھا گیا۔
زکاة کی فرضیت:
زکاة اسلام کا ایک اہم ترین
فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے
ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرئہ اسلام سے اسی طرح
خارج ہو جاتا ہے، جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔
زکاة کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی جبکہ دوسری
طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی
فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی؛ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر
رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی؛
لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکاة کے فوائد،
ثمرات و برکات:
زکاة اللہ رب العزت کی جانب سے
جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری
ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ
تعالیٰ کا فضل ہے؛ کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی
تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی
مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی
بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ
مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی
حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن
اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور
انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی
و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں
چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے، تفصیلی مباحث، دئیے
گئے حوالہ جات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:
(۱) زکاة کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ
مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرة:۲۶۷،صحیح البخاري، کتاب الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۱۰)
(۲) زکاة کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرة:۱۶۱، تفسیر البیضاوی:البقرة:۲۶۱)
(۳)زکاة کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا
نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ (الفاطر:۲۹،۳۰)
(۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکاة
ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الأعراف:۱۵۶)
(۵)کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں
گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکوة کی
ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:۴)
(۶) زکاة ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن
ابن ماجہ، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:۲۸۰)
(۷) قبر میں زکاة (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی
ہے۔(المصنف لابن أبي شیبة،کتاب الجنائز، رقم الحدیث:۱۲۱۸۸،۷/۴۷۳،دار قرطبة، بیروت)
(۸) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے
پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکاة کی ادائیگی
بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الصلاة، باب فی المحافظة علی
وقت الصلوٰت، رقم الحدیث۴۲۹،۱/۲۱۴،دار ابن حزم)
(۹) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکاة ہے۔
(مسند أحمد:مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث:۱۲۳۹۴)
(۱۰) انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ
ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاہ:۳/۶۳)
(۱۱) زکاة سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الإیمان
للبیہقي،کتاب الزکاة، فصل في من أتاہ اللہ مالا من غیر مسألة،رقم الحدیث:۳۵۵۷، ۳/۲۸۲،
دارالکتب العلمیہ)
(۱۲)زکاة سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ
للبیہقي،کتاب الزکاة، باب الدلیل علی أن من أدی فرض اللہ
فی الزکاة، رقم الحدیث:۷۳۷۹)
اوپر
جتنے فضائل ذکر کیے گئے ہیں وہ ہر قسم کی زکاة سے متعلق ہیں
، چاہے وہ” زکاة “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی
،عشر ہو یا جانوروں کی زکاة ۔
زکاة ادا نہ کرنے
کے نقصانات اور وعیدیں:
فریضہ زکاة کی ادائیگی
پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی
ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآن ِ پاک اور احادیث
ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور
دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا
گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کیے جاتے ہیں:
(۱) جو لوگ زکاة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی
آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں
اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورة توبہ:۳۴،۳۵)
(۲) ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال
دیا جائے گا۔(سورة آل عمران:۱۸۰)
(۳) ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے
گا۔ (سورة البقرة:۲۵۴)
(۴)زکاة کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورة
اللیل:۵ تا۱۱)
(۵)ایسے
شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں
آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید
نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی
دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل
ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري
، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۰۳،۲/۱۱۰،دارطوق النجاة)
(۶) مرتے وقت ایسا شخص زکاة ادا کرنے کی تمنا کرے گا؛ لیکن
اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورة المنافقون:۱۰، صحیح البخاری، کتاب الزکاة، باب فضل صدقة الشحیح
الصحیح، رقم الحدیث:۱۴۱۹، ۲/۱۱۰،
دارطوق النجاة)
(۷)ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی
جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور
سینہ کو داغا جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إثم مانع
الزکاة)
(۸) ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر،
اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوة للبیہقي،
باب الإسراء ،رقم الحدیث:۶۷۹)
(۹) ایسے افراد سے قیامت کے دن حساب کتاب لینے میں
بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب
الزکاة، باب فرض الزکاة:۳/۶۲)
(۱۰) جب لوگ زکاة روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ
ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۲۵۷۷)
(۱۱) جب کوئی قوم زکاة روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ
اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (المعجم
الأوسط للطبراني، تحت من اسمہ عبدان، رقم الحدیث:۴۵۷۷)
زکاة ادا کرنے سے مال میں کمی واقع
نہیں ہوتی:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”
کہ میں تین چیزوں پر قسم کھاتا ہوں اور تمہیں ایک
اہم بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ارشاد فرمایا :کہ کسی
بندے کا مال زکاة (و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا
جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں
اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو
اللہ تعالی اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں“،
یا نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا۔اور
میں ( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں ایک اور خاص بات
بتاتا ہوں، سو تم اسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ”دنیا تو چار
قسم کے افراد کے لیے ہے:
ایک اس بندے کے لیے جس کو
اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا
فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں
کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علم ِدین اور مال کی
روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں
اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔(مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ
کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ،
تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے)تو یہ
شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔
دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو
اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی لیکن مال
عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ
اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا
(جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ
کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ
پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔
تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس
کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن
علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال
کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ
رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے
حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔
چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو
اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم
کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی
اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ
کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے
اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ
بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے؛ پس اس کا گناہ اور وبال اس پہلے
شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے“۔(ترمذی شریف
کتاب الزہد رقم الحدیث:۲۳۲۵، ۴/۵۶۲)
زکاة کن افراد پر
اور کن افراد کے لیے ہے؟
دنیا میں بسنے والے افراد
کا جائزہ لیا جائے تو ان تما م افراد کو تین طبقات میں تقسیم
کیا جا سکتا ہے:
(۱) مال دار افراد، جن پر مخصوص شرائط کے بعد زکاة فرض ہوتی
ہے۔
(۲) دوسرے غریب افراد، جن پرزکاة فرض نہیں ہوتی
اور ان کے لیے زکاة لینا جائز ہے۔
(۳)تیسرے وہ متوسط درجے کے افراد، جن پر زکاة تو فرض نہیں
ہوتی؛ لیکن ان کے لیے زکاة لینا بھی جائز نہیں۔
اب ان تینوں قسم کے افراد کو
پہچاننے کے لیے کیا معیار اور کسوٹی ہے کہ اس کے مطابق ہر
طبقے والا اپنی حالت اور کیفیت کو پہچان کر اس کے مطابق اپنے
اوپر عائد احکامات ِ الٰہیہ کوپہچان کر پورا کر سکے،اس کے لیے
دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے: ایک تو وہ کون سی اشیاء
یا اموال ہیں جن کے ہوتے ہوئے زکاة فرض ہوتی ہے؟ اور دوسرا وہ
اشیاء یا اموال کتنی مقدار میں ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے
کوئی شخص زکاة دینے والا یا زکاة لینے والا ٹھہرتا ہے؟ان
میں سے پہلی چیز کو ”اموالِ زکاة “ اور دوسری چیز
کو ”نصابِ زکاة “ سے پہچانا جاتا ہے۔ذیل میں اموال ِ زکاة اور
نصاب ِ زکاة کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے:
اموالِ زکاة:
اموالِ زکاة سے مراد وہ اشیاء یا
اموال ہیں، جن کا(مخصوص مقدار میں)مالک ہونے پر(جس کو نصاب سے پہچانا
جاتا ہے اور اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) زکاة فرض ہوتی ہے۔وہ
کل چار قسم (کی اشیاء یا اموال) ہیں:
(۱) سونا، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، اینٹ
ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال
میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا
ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (سونا)مال ِ زکاة ہے۔
(۲) چاندی، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں
ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں
ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی
کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (چاندی)مال ِ زکاة
ہے۔
(۳) نقدی، اپنے ملک کی ہو یا کسی اور ملک کی،
اپنے پاس ہو یا بینک میں، چیک ہو یا ڈرافٹ،نوٹ ہو یا
سکّے، کسی کو قرض دی ہوئی ہو(بشرطیکہ ملنے کی امید
ہو)یا اس کی سرمایہ کاری کر رکھی ہو،ان تمام صورتوں
میں یہ (نقدی) مال ِ زکاة ہے۔
(۴) مال ِ تجارت، یعنی تاجِر کی دکان کا ہر وہ
سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال
اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال
ِ زکاة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے
رکھ لیا، یا اس کے بارے میں بیٹے یا دوست وغیرہ
کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی
اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ
مال ،مالِ زکاة نہ رہا)۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۰،دار إحیاء التراث العربي)
یہ کل چار قسم کے اموال ہیں
جن پر (مخصوص مقدار تک پہنچنے پر)زکاة فرض ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی
مقروض ہو تو قرضوں کی ادائیگی کے بعد بچنے والے اموال کی
زکاة دی جائے گی۔
نصابِ زکاة:
سطورِ بالا میں معاشرے کے تین
طبقات کو بیان کیا گیا تھا،جن کی تمیز ”نصاب “کے
مالک ہونے پر موقوف ہے، اس تمیز کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری
ہے کہ نصاب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نصاب کا تعلق ”زکاة دینے والے “ سے
ہے اور دوسرے نصاب کاتعلق ”زکاة لینے والے “ سے ہے، دونوں قسم کے نصابوں میں
کچھ فرق ہے، جو ذیل میں لکھا جا رہا ہے:
پہلی قسم کا
نصاب (زکاة دینے والے کے لیے)
اللہ رب العزت نے اپنے غریب بندوں
کے لیے امراء پر ان کے اموال کی ایک مخصوص مقدار پر زکاة فرض کی
ہے، جس کو نصاب کہا جاتا ہے، اگر کوئی شخص اس نصاب کا مالک ہو تو اس پر زکاة
فرض ہے اور اگر کسی کے پاس اس نصاب سے کم ہو تو اس شخص پر زکاة فرض نہیں
ہے۔
(۱) اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ ہو اور کوئی
مال(مثلاً:چاندی، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک سونا ساڑھے
سات تولے (479ء87گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی، اور
اگر سونا اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع
الصنائع، کتاب الزکاة، صفةالزکاة:۲/۱۰۵،دار إحیاء التراث العربي)
(۲) اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ ہو اور کوئی مال
(سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک چاندی ساڑھے باون
تولے (35ء612گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی، اور اگر
چاندی اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔
(بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۰،دار إحیاء التراث العربي)
(۳)اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ ہو اور کوئی مال
(مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب تک نقدی اتنی
نہ ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام) چاندی خریدی
جاسکے ، اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی اور اگر نقدی اتنی
ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا
سکے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،أموال
الزکاة:۲/۱۰۳،دار إحیاء التراث العربي)
(۴) اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو (چاہے جتنی
بھی ہو) یا سونا اور نقدی ہو یا سونا اور مالِ تجارت ہو یا
چاندی اور نقدی ہویا چاندی اور مالِ تجارت ہویا (تینوں
مال)سونا، چاندی اور نقدی ہو یا سونا ، چاندی اور مالِ
تجارت ہو یا(چاروں مال) سونا، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت ہو
تو ان تمام صورتوں میں ان اموال کی قیمت لگائی جائے گی
، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت
کے برابر ہو جائے تو زکاة واجب ہو گی ورنہ نہیں۔ (بدائع
الصنائع، کتاب الزکاة،صفة الزکاة:۲/۱۰۵،۱۰۶،دار إحیاء التراث العربي)
دوسری قسم
کا نصاب (زکاة لینے والے کے لیے)
اس نصاب میں مذکورہ نصاب (یعنی
پہلی قسم کے نصاب کی تمام صورتوں )کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی
شامل کیا جائے گا،اور یہاں بھی وہ تمام صورتیں بنیں
گی جو پہلی قسم کے نصاب میں بنتی تھیں، مثلاً:
(۱) اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ اور ”ضرورت سے زائد سامان
“ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی ،اگر
ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی
خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا
جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔
(۲) اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ اور ”ضرورت سے زائد
سامان “ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہوتو ان
دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی اگر ان کی
قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی
خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا
جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔
(۳)اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ اور ”ضرورت سے زائد
سامان “ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت)
نہ ہوتو جب ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے
(35ء612گرام)چاندی خریدی جاسکے، تو اس مقدار کی مالیت
کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر
اور قربانی واجب ہے۔ اور اگر ان دونوں کی قیمت اتنی
نہ ہو کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے
تو ایسے شخص کا زکاة لینا جائز ہے۔
(۴) اگر کسی کے پاس سونا ،چاندی اور ”ضرورت سے زائد
سامان “ہو (چاہے جتنا بھی ہو)۔
(۵) اگر
کسی کے پاس سونا ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
(۶) اگر
کسی کے پاس سونا،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو ۔
(۷) اگر کسی کے پاس چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے
زائد سامان “ہو۔
(۸) اگر کسی کے پاس چاندی ، مالِ تجارت اورضرورت سے
زائد سامان ہو۔
(۹) اگر
کسی کے پاس (چاروں مال)سونا، چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد
سامان“ہو۔
(۱۰) اگر کسی کے پاس سونا ، چاندی ،مالِ تجارت ہو اور
”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
(۱۱) اگر کسی کے پاس (پانچوں مال)سونا،چاندی، نقدی
،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہوتوان تمام صورتوں میں ان تمام
اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر انکی قیمت
ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو
اس مقدار کی مالیت کے مالک کا زکاة لیناجائز نہیں ہے اور
ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔اور اگر مذکورہ
صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہوتو ایسا شخص شریعت کی
نگاہ میں صاحب نصاب نہیں کہلاتا، یعنی اس شخص کا زکاة اور
ہر قسم کے صدقات ِ واجبہ لینا جائز ہو گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب
الزکاة، مصارف الزکاة:۲/۱۵۸،دار
إحیاء التراث العربي)
ضرورت سے زائد
سامان:
وہ تمام چیزیں جو گھروں میں
رکھی رہتی ہیں ، جن کی سالہا سال ضرورت نہیں پڑتی
، کبھی کبھار ہی استعمال میں آتی ہیں، مثلاً: بڑی
بڑی دیگیں ، بڑی بڑی دریاں، شامیانے یا
برتن وغیرہ۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب
الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
الف:وی سی آر۔
ڈش ،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیوکیسٹیں
جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں
؛بلکہ لغویات ہیں۔مذکورہ قسم کا سامان ضرورت سے زائد کہلاتا
ہے،اس لیے ان سب کی قیمت حساب میں لگائی جائے گی۔
ب:رہائشی مکان ،
پہننے،اوڑھنے کے کپڑے، ضرورت کی سواری اور گھریلو ضرورت کا
سامان جو عام طور پر استعمال میں رہتا ہے، یہ سب ضرورت کے سامان میں
داخل ہیں، اس کی وجہ سے انسان شرعاً مال دار نہیں ہوتا، یعنی
ان کی قیمت نصاب میں شامل نہیں کی جاتی۔(الفتاویٰ
الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
ج: صنعتی آلات، مشینیں
اور دوسرے وسائل رزق (جن سے انسان اپنی روزی کماتا ہے)بھی ضرورت
میں داخل ہیں ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل
نہیں کی جاتی، مثلاً:درزی کی سلائی مشین،
لوہاراور کاشت کار وغیرہ کے اوزار، سبزی یا پھل بیچنے والی
کی ریڑھی یا سائیکل وغیرہ۔(الفتاویٰ
الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
د:اگر کسی کے پاس ضرورت
پوری کرنے کا سامان ہے؛ لیکن اس نے کچھ سامان اپنی ضرورت سے
زائدبھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، مثلاً:کسی کی ضرورت ایک
گاڑی سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے پاس دو گاڑیاں
ہیں، تو اس زائد گاڑی کی قیمت کو نصاب میں داخل کیا
جائے گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة،مصارف الزکاة:۲/۱۵۸،دار إحیاء التراث العربي)
زکاة واجب ہونے کے
لیے تاریخ:
زندگی میں سب سے پہلی
بار جب کسی کی ملکیت میں پہلی قسم کے نصاب کے مطابق
مال آجائے، تو وہ دیکھے کہ اس دن قمری سال (چاند )کی کون سی
تاریخ ہے؟اس تاریخ کو نوٹ کر لے، یہ تاریخ اس شخص کے لیے
زکاة کے حساب کی تاریخ کے طور پر متعین ہو گئی ہے۔واضح
رہے کہ زکاة کے وجوب اور ادائیگی کے لیے قمری سال ہونا
ضروری ہے ، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو خوب
غور و فکر کر کے کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے،آئندہ
اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا۔
زکاة کا حساب کرنے
کا طریقہ:
جس چاند کی تاریخ کو کسی
کے پاس بہ قدر نصاب مال آیا ، اس سے اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ
میں اپنے مال کا حساب کیا جائے اگر بہ قدر (پہلی قسم کے )نصاب
کے مال ہے تو اس کل مال کا اڑھائی فیصد (2.5%) زکاة دینا ہو گی۔(العالمگیریہ،
کتاب الزکاة:۱/۱۷۵،
رشیدیہ)
سامان کی قیمت
لگانے کا طریقہ:
”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری
قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا
کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت
لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے
نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ
میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں
اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی
جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح
سونا ، چاندی کی بھی قیمت فروخت کا اعتبار ہو گا۔مثلاً:
کراچی میں کسی شخص نے یہ چیز دس ہزار میں خریدی،
پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت پندرہ ہزار یا کم ہو کے سات
ہزار ہو گئی تو فروخت والی قیمت کو زکاة کے لیے شمار کیا
جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاة،باب زکاة الغنم:۲/۲۸۶، سعید)
مال پر سال گذرنے
کا مطلب:
جس تاریخ میں زکاة واجب ہوئی
تھی، اس کے ایک سال بعد زکاة دی جائے گی،اس ایک سال
کے گذرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی تاریخ اور ایک سال کے
بعد والی تاریخ میں مال نصاب کے بہ قدر اس شخص کی ملکیت
میں رہے، ان دونوں تاریخوں کے درمیان میں مال میں
جتنی بھی کمی بیشی ہوتی رہے ، اس سے کچھ اثر
نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ مال نصاب سے کم نہ ہو گیا ہو، یعنی
مال کے ہر ہر جز پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ واجب ہونے کے بعد اگلے
سال اسی تاریخ تک نصاب کا باقی رہنا ضروری ہے، اگر نصاب
باقی ہوا تو ادائیگی لازم ہو گی ورنہ نہیں۔
(بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،اموال الزکاة:۲/۹۶،دار إحیاء التراث العربي)
مالِ تجارت کی
زکاة کے احکام:
”مال ِ تجارت سے مراد “پیچھے واضح
کی جا چکی ہے کہ تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی
نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت
باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکاة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال
(مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے
میں کسی کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا
پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت
نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکاة نہ رہا)۔بعض افراد اس غلط فہمی
میں رہتے ہیں کہ تجارت کا مال صر ف و ہ ہے جس کی انسان باقاعدہ
تجارت کرتا ہو، اور نفع کمانے کی نیت سے خرید و فروخت کرتا
ہو؛حالانکہ شرعاً کسی چیز کے مالِ تجارت بننے کے لیے اس میں
مذکورہ قید ضروری نہیں؛ بلکہ جو چیزبھی انسان فروخت
کرنے کی نیت سے خریدے وہ تجارت کے مال میں شمار ہوتی
ہے، البتہ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہ ہوتو بعدمیں
فروخت کر لینے کی نیت سے وہ چیز مالِ تجارت نہیں
بنے گی۔دوسری طرف وہ چیز جسے تجارت کی نیت سے
خریدا تھا اگر بعد میں تجارت کی نیت بدل لی تو وہ چیز
مالِ تجارت سے نکل جائے گی۔سونا ، چاندی اور نقدرقم اس تعریف
سے خارج ہے، یعنی ان کے لیے کسی خاص نیت وغیرہ
کی ضرورت نہیں، یہ ہر حال میں مالِ زکاة ہیں۔(ردالمحتار،کتاب
الزکاة: ۲/۲۶۷،سعید)
تجارتی
اموال سے متعلق چند مسائل :
(۱) جن اشیاء کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو ؛ بلکہ ان کی
ذات کو باقی رکھتے ہوئے ان سے کرایہ وغیرہ حاصل کرنا یا
کسی اور شکل میں نفع کمانا مقصود ہو، تو وہ چیزیں مالِ
تجارت میں داخل نہیں ہیں۔مثلاً: کارخانوں کا منجمد اثاثہ
، پرنٹنگ پریس، مشینری، پلانٹ، دوکان کا سامان ، استعمال کی
گاڑی، ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کرائے پر چلانے کی نیت
سے خریدی گئی گاڑی، رکشہ وغیرہ، کرائے پر دینے
کی نیت سے بنا یا گیا مکان یا دوکان وغیرہ،گھر
کے استعمال کے برتن، کرائے پر دینے کے لیے رکھے ہوئے برتن ، کراکری
کا سامان، فریج ، فرنیچر، سلائی یا دھلائی کی
مشین، ڈرائی کلینرز کے پلانٹ وغیرہ۔اس قسم کی
چیزیں چونکہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی
گئیں؛بلکہ ان کو باقی رکھ کر ان سے نفع اٹھانا مقصود ہے؛ اس لیے
یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہوں گی اور ان پر زکاة واجب
نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کو خریدا ہی فروخت کرنے کے لیے
ہو تو یہ مالِ تجارت ہو ں گی۔ اسی طرح موجودہ دور میں
بعض مکینک حضرات اپنے کام کاج کے اوزاروں کے ساتھ بعض اوزاروں کو اس لیے
خریدتے ہیں کہ بہ وقتِ ضرورت گاہکوں کی مشینری وغیرہ
میں فٹ کر دیں گے، اور اس کی قیمت گاہکوں سے وصول کر لیں
گے، تو یہ مال بھی مالِ تجارت میں داخل ہے۔ (ردالمحتار،
کتاب الزکاة: ۲/۲۶۷،سعید)
(۲) اگر کوئی جانور بیچنے کے لیے خریدے تو
وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں،ان کی زکاة بھی
واجب ہو گی(احسن الفتاویٰ:۴/۲۸۶)
قصاب جو جانور ذبح کر کے گوشت بیچتے
ہیں تو یہ جانور بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔جو
جانور دودھ حاصل کرنے کے لیے خریدے تو وہ مالِ تجارت میں داخل
نہیں ہیں؛ البتہ ان کے دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی نقد
رقم میں داخل ہو کر نصاب کا حصہ بنے گی۔(احسن الفتاویٰ:۴/۲۸۷)
(۳) اگر کسی کا پولٹری فارم یا مچھلی فارم
ہو،تو ان کی زکاة میں یہ تفصیل ہے کہ ان کی زمین،
مکان اور ان سے متعلقہ سامان پر تو زکاة فرض نہیں ہوتی،البتہ مرغیاں
یا مچھلیاں اگر فروخت کرنے کے لیے رکھی ہیں تو یہ
مالِ تجارت ہیں اوراگر فروخت کرنے کے لیے نہیں،بلکہ مرغیوں
کے انڈے حاصل کرنے کے لیے وہ مرغیاں رکھی ہیں تو ان انڈوں
سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکاة ہو گی۔(احسن الفتاویٰ:۴/۳۱۰)جو شخص انڈے فروخت کرنے کے لیے خریدتا ہے تو وہ
انڈے مالِ تجارت ہیں،اور اگر ان انڈوں سے چوزوں کا حصول مقصود ہے تو ان بچوں
کی قیمت پر زکاة لازم ہوگی۔
سامانِ تجارت کی
قیمت لگانے کا طریقہ:
”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری
قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا
کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت
لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت
ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ
میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں
اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی
جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار،
کتاب الزکاة،باب زکاة الغنم:۲/۲۸۶، سعید)
قرض پر زکاة کا
حکم:
جو رقم کسی کو بطور قرض دی
ہو ، اس کی دو قسمیں ہیں :ایک تووہ قرض ہے ، جس کے (کبھی
نہ کبھی)واپس ملنے کی امید ہو ۔ دوسرا وہ قرض ہے ،جس کے
واپس ملنے کی (کبھی بھی)امید نہ ہو ۔
تو پہلی قسم والے قرض کی زکاة دی
جائے گی اور دوسری قسم کے قرض کی زکاة نہیں دی جائے
گی؛البتہ اگر کبھی یہ قرض بھی وصول ہو گیا تو اس کی
بھی زکاة ادا کی جائے گی۔(ہندیہ، کتاب الزکاة،
الباب الاول:۱/۱۷۴،
۱۷۵، رشیدیہ)
قرض کی تین
قسمیں:
پہلی قسم والے قرض کی تین
قسمیں ہیں: (۱)دَین
قوی (۲) دَین متوسط
(۳)
دَین ضعیف۔
ان تینوں قسم کے دُیون (قرضوں) کے وصول ہونے پر زکاة کی ادائیگی
کا طریقہ اور حکم قدرے مختلف ہے، ذیل میں اجمالاً دَین کی
تینوں قسموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
دَین قوی
کا حکم:
اگر کسی شخص کونقد روپیہ یا
سونا یا چاندی بہ طور ِ قرض دی،یا کسی شخص کے ہاتھ
تجارت کا مال بیچا اور اس کی قیمت ابھی وصول نہیں
ہوئی،پھر یہ مال ایک سال یا دو، تین سال کے بعد
وصول ہوا تو ایسے قرض کو ”دَینِ قوی“ کہتے ہیں۔
ایسا قرض اگرچاندی کے نصاب
کے برابر یا اس سے زائد ہے تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة
حساب کر کے دینا فرض ہے، لیکن اگر قرض یک مُشت وصول نہ ہو ،بلکہ
تھوڑا تھوڑا وصول ہو ، تو جب چاندی کے نصاب کا بیس فی صد (یعنی:
ساڑھے دس تولے)وصول ہو جائے، تو صرف اس بیس فی صدکی زکاة ادا
کرنا فرض ہو گا، پھر جب مزید بیس فی صدوصول ہو جائے گا تو اس کی
زکاة ادا کرنافرض ہو گی، اسی طرح ہر بیس فی صد وصول ہونے
پرزکاةفرض ہوتی رہے گی اور زکاة سابقہ تمام سالوں کی نکالی
جائے گی۔
اور اگر قرض کی رقم چاندی
کے نصاب کے برابر نہیں؛ بلکہ اس سے کم ہے تو اس پر زکاة فرض نہیں ہو گی؛
البتہ اگر اس آدمی کی ملکیت میں کچھ اور مال یا رقم
ہے اور دونوں کو ملانے سے چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو
جاتے ہیں تو زکاة فرض ہو گی۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب
الزکاة، باب زکاة المال:۲/۳۰۵،۳۰۶،۳۰۷، سعید)
دَین متوسط
کا حکم:
اگر کسی کو قرض نقد روپے اور سونا
چاندی کی صورت میں نہیں دیا اور تجارت کا مال بھی
فروخت نہیں کیا، بلکہ کوئی چیز فروخت کی جو تجارت کی
نہیں تھی، مثلاً:پہننے کے کپڑے یا گھر کا کوئی سامان یا
کوئی زمین فروخت کی تھی،اس کی قیمت باقی
ہے، تو ایسے قرض کو ”دَین ِمتوسط “کہتے ہیں۔
تو اگر یہ قیمت چاندی
کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے اور چند سالوں کے بعد وصول ہوئی تو
وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة اس پر فرض ہو گی اور اگر یک
مُشت وصول نہ ہو تو جب تک یہ قرض چاندی کے نصاب کے برابر یا اس
سے زائد وصول نہ ہو جائے، تب تک زکاة ادا کرنا فرض نہ ہو گا، البتہ وصول ہونے کے
بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکاة ادا کرنا فرض ہے۔
اگر مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہو تو ”دَین
متوسط“ سے جو بھی تھوڑی تھوڑی رقم ملتی رہے، اس کو اپنے
پاس موجود نصاب میں ملاتا رہے اور زکاة دے۔(العالمگیریہ،
کتاب الزکاہ، باب اقسام الدیون:۱/۱۷۵، رشیدیہ)
دَین ِ ضعیف
کاحکم:
کسی شخص کو نہ نقد روپیہ
قرض دیا، نہ سونا چاندی فروخت کی اور نہ ہی کوئی
اور چیز فروخت کی، بلکہ کسی اور سبب سے یہ قرض دوسرے کے
ذمے ہو گیا، مثلاً: شوہر کے ذمے اپنی بیوی کا حق مہر ادا
کرنا باقی ہو، یا بیوی کے ذمے شوہر کا بدلِ خلع ادا کرنا
باقی ہو،یا کسی کے ذمے دیت ادا کرنا باقی ہو یا
کسی مالک کے ذمے اپنے ملازم کی تنخواہ دینا باقی ہو ، تو
ایسے قرضوں کو ”دَین ِ ضعیف“ کہتے ہیں۔
ایسے قرضوں پر زکاة کی ادائیگی
کا حکم یہ ہے کہ ان اموال کی زکاة کا حساب وصول ہونے کے دن سے ہو گا،
اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکاة فرض نہیں ہو گی۔وصول ہونے
کے بعد اگر یہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو اس نصاب کے ساتھ اس مال کو ملا کے
زکاة ادا کرے گا، ورنہ وصول ہو جانے کے بعد اس مال پر سال گذر جانے کے بعد زکاة
ادا کرے گا۔(فتح القدیر، کتاب الزکاة: ۲/۱۲۳، رشیدیہ)
اور جو ادھار خود لیا ہوا ہے ،اس
کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ فورا ً سارے کا سارا
ادا کرنا لازم ہے، تو اس کو نصاب سے منہا کیا جائے گا، دوسری قسم یہ
کہ یک مشت اس کل رقم کی ادائیگی لازم نہیں بلکہ
قسطوں میں ادا کرنا ہے تو صرف اس مہینے کی قسط نصاب سے منہا کی
جائے گی۔اس کے علاوہ قرض اگر تجارت کے لیے لیا ہے تو اس کی
بھی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی عمارت ،
بلڈنگ یا مشینری وغیرہ کے لیے لیاہے تو اسے
نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا اور اگر محض تجارت کے لیے لیا
ہے تو اسے نصاب سے منہا کیا جائے گا۔(رد المحتار، کتاب الزکاة: ۲/۲۶۳، سعید)
بینکوں سے
زکاة کاٹنے کا حکم:
حکومت کے آرڈینیس کے تحت
حکومت بینکوں سے لوگوں کی رقمیں زکاة کی مد میں
کاٹتی ہے۔شرعاً اس طریقے سے زکاة کی ادائیگی
نہیں ہوتی، حکومتِ وقت کے اس طرح زکاة کاٹنے میں شرعاً دس خرابیاں
ہیں، جنہیں فتاویٰ بینات جلد دوم ،ص:۶۳۵-۶۴۰ میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، بہ وقتِ
ضرورت وہاں مراجعت کرلی جائے۔(فتاویٰ بینات،کتاب
الزکاة، حکومت کا مسلمانوں سے زکاة وصول کرنا :۶۴۰-۶۳۵ ، مکتبہ بینات)
کمیٹی
کی رقم پر زکاة کا حکم:
کچھ افراد مل کے کمیٹی
ڈالتے ہیں، کچھ ممبروں کی کمیٹی پہلے نکل آتی
ہے،مثلاً: بیس افراد نے مل کر ایک ایک ہزار روپے جمع کر کے کمیٹی
ڈالی، ان میں سے ایک کی کمیٹی پہلے نکل آئی،
اب اس شخص کے پاس انیس ہزار روپے دوسروں کے ہیں اور ایک ہزار
اپنا، تو یہ شخص اگر صاحب نصاب ہے تو یہ اپنے ایک ہزار روپے کو
اس نصاب میں داخل کرے گا، انیس ہزار کو نہیں،اسی طرح ہر
ممبر صرف اتنی رقم نصابِ زکاة میں جمع کرے گا، جتنی اس نے ابھی
تک جمع کروائی تھی، البتہ آخری شخص پورے بیس ہزار کو اپنے
نصاب میں شامل کرے گا، اور اگر یہ مذکورہ افراد صاحبِ نصاب نہ ہوں تو
اس نکلنے والی کمیٹی کی رقم پر زکاة واجب نہیں ہو گی۔(الفتاویٰ
الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة: ۱/۱۷۳، رشیدیہ)
خلاصہ کلام:
آخر میں بطورِ خلاصہ ان تمام
اثاثوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر زکاة واجب ہوتی ہے اور جن پر واجب
نہیں ہوتی:
وہ اثاثے جن پر
زکاة واجب ہوتی ہے:
(۱) سونے کی مارکیٹ ویلیو(خواہ سونا زیور
کی صورت میں ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو)۔
(۲)
چاندی کی
مارکیٹ ویلیو (خواہ چاندی زیور کی صورت میں
ہو یا کسی بھی شکل میں ہو)۔(۳) نقد رقم۔ (۴) کسی
کے پاس رکھی گئی امانت (خواہ رقم ہو یا سونا، چاندی)۔(۵)بینک بیلنس۔(۶) غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو۔
(۷)
کسی بھی مقصد
(مثلاً: حج ، بچوں کی شادی یا مکان وغیرہ کی خریدنے)
کے لیے رکھی ہوئی رقم۔(۸) حج کے لیے جمع کروائی ہوئی وہ رقم ،جو معلم کی
فیس اور کرایہ جات وغیرہ کاٹ کر واپس کر دی جاتی ہے۔
(۹)
بچت سرٹیفکیٹ
مثلاً: NIT،NDFC،FEBC، کی اصل رقم (اگرچہ ان کا خریدنا
ناجائز ہے)۔(۱۰) پرائز بانڈز کی
اصل قیمت (اگرچہ ان کی خرید و فروخت اور ان پر ملنے والا انعام
جائز نہیں ہے) ۔(۱۱) انشورنس پالیسی میں جمع کردہ اصل رقم (اگرچہ
مروجہ انشورنس کی تمام صورتیں ناجائز ہیں)۔ (۱۲) قرض دی ہوئی رقم(بشرطیکہ واپس ملنے کی
امید ہو)۔ (۱۳) کسی بھی
مقصد کے لیے دی ہوئی ایڈوانس رقم، جس کا اصل یا بدل
اسے واپس ملے گا۔ (۱۴) سیکورٹی ڈیپازٹ کے طور پر جمع کردہ رقم۔
(۱۵)
بی سی (کمیٹی)میں
جمع کروائی ہوئی رقم(بشرطیکہ ابھی تک کمیٹی
نکلی نہ ہو)۔ (۱۶) تجارتی یا تجارت کی نیت سے خریدے
گئے حصص۔ (۱۷) شرکت والے معاملے
میں اپنے حصے کے قابلِ زکاة اثاثوں کی رقم مع نفع۔ (۱۸) بیچنے کے لیے خریدا ہوا سامان، جائیداد،
حصص اور خام مال۔ (۱۹) تجارت کے لیے خریدی ہوئی پراپرٹی۔
(۲۰)
ہر قسم کے تجارتی
مال کی مارکیٹ ویلیو (یعنی: قیمتِ
فروخت)۔ (۲۱) فروخت شدہ چیزوں
کی قابلِ وصول رقم۔ (۲۲) تیار مال کا اسٹاک۔ (۲۳) خام مال۔
جو رقم مالِ زکاة
سے منہا کی جائے گی:
(۱) ادھار لی ہوئی رقم۔ (۲) خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قیمت۔
(۳)
کمیٹی حاصل
کرنے کے بعد بقیہ اقساط کی رقم۔ (۴) ملازمین کی تنخواہ ، جس کی ادائیگی
اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہے۔ (۵) یوٹیلٹی بلز، کرایہ وغیرہ جن کی
ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہو۔ (۶) گزشتہ سالوں کی زکاة اگر ابھی تک اداء نہ کی
گئی ہو۔ (۷) قسطوں پر خریدی
ہوئی چیز کی واجب الاداء قسطیں۔
اب ماقبل میں ذکر کیے گئے
”وہ اثاثے جن پر زکاة واجب ہوتی ہے“ کی تمام صورتوں کو سامنے رکھتے
ہوئے اپنی کل قیمت جمع کر لیں ، پھر ”جو رقم مالِ زکاة سے منہا
کی جائے گی“ میں ذکر کی گئی صورتوں کے ہونے کی
صورت میں تمام چیزوں کی قیمت جمع کر کے پہلی رقم میں
سے گھٹا لیں، اب جو رقم باقی بچے ، اس کا چالیسواں حصہ(یعنی
: ڈھائی فی صد )بطورِ زکاة نکال کر مستحقین تک پہنچائیں۔
ناقابلِ زکاة
اثاثے:
(۱) رہائشی مکان، ایک ہو یا زیادہ۔ (۲) دوکان ؛ البتہ دوکان کا مال مالِ زکاة ہوتا ہے۔ (۳) فیکٹری کی زمین ، بشرطیکہ فروخت
کی نیت سے نہ لی گئی ہو۔ (۴) دوکان، گھر، فیکٹری کا فرنیچر۔ (۵) زرعی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت
نہ ہو۔(۶) کرایہ پر دیا
ہوا مکان ، دوکان یا فلیٹ۔ (۷) مکان ، دوکان، اسکول یا فیکٹری بنانے کے لیے
خریدا ہوا پلاٹ۔ (۸) کرایہ
پر چلانے کے لیے ٹرانسپورٹ گاڑی، مثلاً: ٹیکسی ، رکشہ یا
بس وغیرہ۔
***
----------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ،
جلد: 96 ، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء